پیرس،2جون(ایس اونیوز/آئی این ایس انڈیا)کیا اسلام میں تشدد ایک مسئلہ ہے؟ خود ساختہ جہادیوں نے ایک عالمی مذہب کو بدنامی سے دوچار کر دیا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے قرآنی تعلیمات کا بغور اور پس منظر کے ساتھ تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔فرانسیسی دارالحکومت پیرس اور بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں دہشت گردوں نے اسلام کے نام پر بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ ان کے اس وحشیانہ عمل کی بدولت ایک عالمی مذہب بدنام ہوا۔ یہ جنگجو خود کو اسلام کے ماننے والے کہتے ہیں اور اپنی شدت پسندانہ کارروائیوں کو قرآن و سنت کی تعلیمات کے عین مطابق قرار دیتے ہیں۔ تاہم مسلمانوں کی اکثریت پر امن اسلام پر یقین رکھتی ہے اور ایک ارب مسلمانوں میں سے 98 فیصد کے لیے ڈیڑھ فیصد کے برابر ان دہشت گردوں کی کارروائیاں نا قابل یقین اور تباہ کن ہیں کیونکہ ایسے کسی بھی حملے کے بعد تمام مسلمانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگتا ہے۔اسلام کے ناقدین اور مغربی اقوام کے ایک بڑے حصے کا خیال ہے کہ اسلام میں بنیادی طور پر جنگجو مزاج پایا جاتا ہے۔ اپنے موقف کو صحیح ثابت کرنے کے لیے یہ افراد قرآن کی ان آیات کے حوالے دیتے ہیں، جن میں کافروں یا غیر مسلموں کو مار دینے کا ذکر کیا گیا ہے۔ تاہم یہ سارے معاملات اتنے آسان نہیں ہیں۔اسلامی امور کے ماہر تھوماس فولک کہتے ہیں، ماہرین مذہبیات کی رائے میں یہ بات غیر متنازعہ ہے کہ اسلام اپنی اساس میں تشدد اور تشدد کو جائز قرار دینے کے حوالے سے جو پیغام دیتا ہے، وہ اس سے زیادہ شدید نہیں ہے، جتنا کہ مسیحیوں کی بائبل میں بھی ملتا ہے۔جرمنی کی کونراڈ آڈیناؤر فاؤنڈیشن سے منسلک ماہر فولک مزید کہتے ہیں کہ قرآن میں طاقت کے استعمال کو جائز قرار دینے والے جتنے بھی بیانات ہیں، انہیں ان کے سیاق و سباق سے ہٹ کر نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ وہ اپنے ماحول سے ہٹے ہوئے نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ الہامی کتابوں کے اسی طرح کے حصے یہودیت اور مسیحیت میں بھی ملتے ہیں۔ خدائے واحد کا پرچار کرنے والے تینوں الہامی مذاہب کے صحیفوں میں ایسے حصے موجود ہیں، جو ایک جدید قاری کے ذہن میں شبہات پیدا کرتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ قرآن بھی اس حوالے سے وضاحت نہیں کر سکتا کہ نوجوان مسلمان ہی، چاہے وہ عراق میں ہوں، شام میں یا پھر برسلز میں، تشدد پر آمادہ کیوں ہوتے جا رہے ہیں؟ اسلام پسند جنگجو اپنی شدت پسندی کو جائز قرار دینے کے لیے جن قرآنی آیات کے حوالے دیتے ہیں، وہ تو آج سے قریب 14 صدیاں پہلے بھی موجود تھیں اور پیغمبر اسلام کے سنت کہلانے والے اعمال یا طریقہ کار میں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ جیسی دہشت گرد تنظیمیں آج ہی کے دور میں کیوں قائم ہوئیں؟ ماضی میں کیوں نہیں؟ کونراڈ آڈیناؤر فاؤنڈیشن کے تھوماس فولک کے بقول اس صورتحال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کو اپنی مقدس کتاب میں آیات کی صحیح اور مکمل تفہیم کے لیے انہیں کسی حد تک تنقیدی اور تجزیاتی نظر سے دیکھنا چاہیے تاکہ وہ اسلام کا اصل پیغام سمجھ سکیں۔